شيشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو (Sheeshon Ka Maseeha Koi Nahin Kya Aas Lagaye Baithe Ho) - فیض احمد فیض (Faiz Ahmed Faiz)
موتی ہو کہ شیشہ، جام کہ در
جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشكو سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا، سو چھوٹ گیا
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شيشو کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
شاید کہ انہی ٹکڑوں میں کہیں
وہ ساغردل ہے جس میں کبھی
سد ناز سے اترا کرتی تھی
سبها ئےغم جانا کی پری
پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ سا گر لے کر پھوڑ دیا
جو مے تھی بہا دی مٹی میں
مہمان کا شهپر توڑ دیا
یہ رنگيں ريزے ہیں شايد
ان شوخ بلوريں سپنوں کے
تم مست جوانی میں جن سے
خلوت کو سجایا کرتے تھے
نادارى ، دفتر، بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بےرهم تھا چومكھ پتھراو
یہ كا نچ کے ڑھانچے کیا کرتے
یا شاید ان زروں میں کہیں
موتی ہے تمہاری عزت کا
وہ جس سے تمہارے اجذ پہ بھی
شمشادقدوں رشک نے
اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت رهجن بھی بہت
ہے چورنگر، یاں مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی
یہ ساگر شیشے، لعل و گهر
سالم ہو تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں، تو فقط
چبھتے ہیں، لہو رلواتے ہیں
تم ناحق شیشے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شيشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
یادوں کے گرےبانو کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخيا ادھىيڑا، ایک سيا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے
اس كارکه ہستی میں جہاں
یہ ساگر شیشے ڑھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے
سب دامن پر ہو سکتے ہیں
جو ہاتھ بڑھے یاور ہے یہاں
جو آنکھ اٹھے وہ بختاور
یاں دھن دولت کا انت نہیں
ہیں گھات میں ڈاکو لاکھ مگر
کب لوٹ جھپٹ سے ہستی کی
دکانیں خالی ہوتی ہیں
یاں پربت پربت ہیرے ہیں
یاں سمندر سمندر موتی ہیں
کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹكائےپھرتے ہیں
ہر پربت کو ہر ساگر کو
نیلام کرتے ہوئے پھرتے ہیں
کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بھڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کے اٹھاي گيروں کی
ہر چال الجھائے جاتے ہیں
ان دونوں میں رن پڑتا ہے
نت بستی بستی نگر نگر
ہر بستے گھر کے سینے میں
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر
یہ كالك بھرتے پھرتے ہیں
وہ بی جے پی جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں
سب سا ساگر شیشے،لال وگوهر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
اٹھو، سب خالی ہاتھوں کو
اس رن سے بلاوے آتے ہیں.
Poet By: فیض احمد فیض (Faiz Ahmed Faiz)
0 comments:
Post a Comment