ہزاروں خواهشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (Hazaaron Khwaishein Aisi Ki Har Khwaish Pe Dam Nikle)
مرزا غالب (Mirza Ghalib)
ہزاروں خواهشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں، مگر پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خون جو چشم-تر سے عمر بھر یوں دم - ب - دم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بےآبرو ہو کر ترے كوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے کامت کہ دراضی کا
اگر اس طرح - اے - پر پیچ - او - خم کا پیچ - او - خم نکلے
مگر لكھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لكھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منصوب مجھ سے باد آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں سے جام - اے - جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ - اے - تیغ - اے - ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سنے پر کہ تیر - اے - پرستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واستے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں ميخانے کا دروازہ 'غالب' اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کے ہم نکلے
0 comments:
Post a Comment